معتمد کے مشورے سے تمام عرب ریاستوں نے مرابطی خاندان کے حکمران یوسف بن تاشفین کو اپنی امداد کے لیے افریقا سے ہسپانیہ بلایا۔ وہ فوج لے کر پہنچا تو الفانسو نے اسے لمبا چوڑا خط لکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کیوں مرنے کے لیے ہسپانیہ آئے ہو۔بہتر ہے چپ چاپ واپس چلے جائو۔ میں مراکش میں آکر تمہارا شوق جنگ پورا کردوں گا۔ یوسف نے اس خط کی پشت پر صرف تین لفظ لکھے اور اسے واپس کردیا۔ ان لفظوں کا مفہوم یہ تھا کہ جو کچھ ہونا ہے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔
غرض فوج لے کر یوسف آگے بڑھا۔ عرب ریاستوں کے جنگجو بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ صوبہ بطلیوس کے ایک میدان زلاقہ میں الفانسو سے مقابلہ ہوا۔ یوسف بن تاشفین اور عرب ریاستوں کی فوج بیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ الفانسو کے جھنڈے تلے کم از کم ساٹھ ہزا آدمی تھے۔ ان میں دور دور کے علاقوں کے فوجی دستے شامل ہوگئے تھے۔ اس لیے کہ عوام نے اسے قومی جنگ کی حیثیت دے دی تھی۔
الفانسو نے یوسف کو پیغام بھیجا کہ جمعہ مسلمانوں کے نزدیک مقدس دن ہے۔ مسیحی بھی اتوار کو مقدس مانتے ہیں، لہٰذا دو دن تو کوئی لڑائی نہ ہونی چاہیے۔ البتہ ہفتے کا دن مقرر کرلیا جائے تو مناسب ہے۔ یوسف نے یہ تجویز منظور کرلی۔ دراصل یہ ایک فریب تھا۔ الفانسو چاہتا تھا کہ اسے بے خبری میں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ مسلمان جمعہ کی نماز ادا کررہے تھے کہ اچانک الفانسو نے حملہ کردیا اور لڑائی شروع ہوگئی۔ یوسف اپنی فوج کو لے کر ایک الگ مقام پر جا کھڑا ہوا اور عرب ریاستوں کی فوجیں الفانسو کے تیز و خونریز حملوں کا نشانہ بنی رہیں۔ جب یوسف نے دیکھا کہ الفانسو کی فوج خاصی تھک گئی ہے تو پہاڑ کے عقب میں سے ہوتا ہوا الفانسو کے پیچھے سے حملہ آور ہوا۔ یہ حملہ ایسا سخت تھا کہ الفانسو کے چھکے چھوٹ گئے۔ ساتھ ہی اس کے کیمپ کو آگ لگادی گئی۔ الفانسو نے شکست فاش کھائی۔ اس کی فوج میں کم از کم بیس ہزار آدمی کھیت رہے۔ اس ایک فتح نے مسلمانوں کے لیے ہسپانیہ پر مزید چار سو سال کے لیے حکمرانی کی صورت پیدا کردی۔ یہ لڑائی جو دنیا کی چند فیصلہ کن لڑائیوں میں شمار ہوتی ہے، 23 اکتوبر 1086ء کو ہوئی تھی۔