مولانا محمد علی مسلمان رہنمائوں میں بے نظیر شخصیت تھے۔ اعلیٰ درجے کے انگریزی داں، انشا پردار اور صحافی، اردو کے ادیب اور شاعر، پرجوش خطیب اور سیاسی رہنما، بہادر اور صاف گو،خدا پرست مسلمان۔ 1878 میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ نے تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ بریلی اسکول میں تعلیم پانے کے بعد علی گڑھ کالج میں داخل ہوئے۔ 1892 میں بی اے کا امتحان دیا تو صوبے بھر میں اول آئے۔ بی اماں اور بڑے بھائی مولانا شوکت علی نے، جو سرکاری ملازم تھے، محمد علی کو سول سروس کے لیے انگلسان بھیجا۔ محمد علی سول سروس میں تو کامیاب نہ ہوئے لیکن آکسفورڈ سے بی اے کی ڈگری لے آئے۔
سب سے پہلے رام پور اور بڑدوہ میں اونچی ملازمتوں پر فائر ہوئے، لیکن جنوری 1910 میں ملازمت ترک کردی۔ جاورہ اور بھوپال نے وزارت کے عہدے پیش کیے لیکن مولانا نے انکار کردیا اور کلکتہ سے انگریزی کا ہفتہ وار اخبار کامریڈ نکالا جس کی زبان اور مدلل بیان کی دھوم مچ گئی۔ جب ہندوستان کا پائے تخت کلکتہ کے بجائے دہلی قرار پایا تو وہ کامریڈ کو بھی دہلی لے آئے اوراردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کردیا۔
پہلی جنگ عظیم چھڑی تو مولانا نے کامریڈ میں خلافت اور ترکی کی حمایت میں لکھا، اس سے حکومت سخت پریشان ہوئی۔ اس نے مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کو نظر بند کردیا اور دونوں اخبار بند ہوئے۔ 1919 میں نظر بندی سے رہا ہوئے۔ تحریک خلافت میں حصہ لیا، کراچی میں مقدمہ چلا اور قید ہوگئے، اس کے بعد چوں کہ ہندوئوں کا رویہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق مخالفانہ ہوگیا تھا، مولانا کانگریس سے نکل آئے۔
لندن کی گول میز کانفرنس کے اجلاس میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کی جس میں فرمایا کہ میں یا آزادی حاصل کرکے جائوں گا یا یہیں مرجائوں گا۔ غلام ملک میں واپس جانے سے آزاد ملک میں مرجانا بہتر ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہیں 1931 میں جان جاں آفریں کو سپرد کردی۔ فلسطین کے مسلمان ان کی میت کو بیت المقدس لے گئے۔ وہاں پر لاکھوں مسلمانوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور وہیں سپرد خاک کردیا